فرشتوں پر ایمان
"ملائکہ" یعنی فرشتے ایک پوشیدہ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی مخلوق ہیں،ان میں "ربوبیت" اور "الوہیت" کی کوئی خصوصیت موجود نہیں،اللہ تعالیٰ نے انہیں نور سے پیدا فرمایا ہے اور ان کو اپنے تمام احکام پوری طرھ بجا لانے اور انہیں نافذ کرنے کی قدرت و قوت عطا فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُۥ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِۦ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ﴿19﴾يُسَبِّحُونَ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ ﴿20﴾
ترجمہ: اور اسی کا ہے جو کوئي آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو اس کے ہاں ہیں اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتےاور نہ تھکتے ہیں رات اور دن تسبیح کرتے ہیں سستی نہیں کرتے (سورۃ الانبیاء،آیت 19-20)
فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ،اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا۔
"نبی ﷺ جب آسمان پر "بیت المعمور" پر پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جو اس میں ایک بار (نماز پڑھ کر ) چلا جاتا ہے دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتا،یعنی پھر کبھی اس کی واپسی کی نوبت نہیں آتی۔"(صحیح بخاری،بد ء الخلق ،باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیھم،حدیث :3207،وصحیح مسلم ،الایمان،باب الاسراء برسول اللہ۔۔۔۔،حدیث :164)
فرشتوں پر ایمان لانا چار امور پر مشتمل ہے
· فرشتوں کے وجود پر ایمان۔
· جن فرشتوں کے نام ہمیں معلوم ہیں ان پر ایمان مفصل اور جن فرشتوں کے نام معلوم نہیں ان سب پر اجمالا ایمان لانا۔
· فرشتوں کی جن صفات کا ہمیں علم ہے ان پر ایمان لانا جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی صفت کے متعلق نبی ﷺ نے بیان فرمایا:
میں نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل و صورت میں دیکھا۔ان کے چھ سو پر تھے اور انہوں نے افق کو بھر رکھا تھا۔یعنی پوری فضا پر چھائے ہوئے تھے۔(مسند احمد:1/407،412،460۔)
کبھی فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسانی شکل و صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے متعلق معروف ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس بھیجا تو وہ ان کے پاس ایک عام انسان کی شکل میں آئے تھے۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،اس وقت آپ (ﷺ) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے درمیان تشریف فرما تھے۔وہ ایک ایسے شخص کی شکل میں آئے تھے کہ ان کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال غیر معمولی طور پر سیاہ تھے اور ان پر سفر کے آثار بھی نہیں تھے،صحابہ میں سے کوئی بھی انہیں نہیں پہچانتا تھا۔وہ اپنے گھٹنے نبی ﷺ کے گھٹنوں سے ملا کر بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لیے۔انہوں نے نبی ﷺ سے اسلام،ایمان،احسان،قیامت کی گھڑی اور اس کی نشانیوں کے بارے میں سوال کیا۔نبی ﷺ انہیں جواب دیتے رہے۔پھر نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مخاطب ہو کر فرمایا:
((ھذا جبریل اتاکم یعلمکم دینکم))
"یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔"(صحیح مسلم،الایمان،باب الایمان ما ھو؟وبیان خصالہ،حدیث:9،10)
اسی طرح وہ فرشتے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیھم السلام کے پاس بھیجا تھا وہ بھی انسان ہی کی شکل میں آئےتھے۔
· فرشتوں کے ان اعمال پر ایمان لانا جو ہمیں معلوم ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انجام دیتےہیں،مثلا اللہ عزوجل کی تسبیح کرنا اور دن رات مسلسل بغیر تھکاوٹ اور اکتاہٹ کے اس کی عبادت کرنا وغیرہ۔بعض فرشتے مخصوص اعمال کے لیے مقرر ہیں۔جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
جبریل امین
اللہ تعالیٰ کی وحی پہنچانے پر مامور ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ساتھ انہیں اپنے نبیوں اور رسولوں کے پاس بھیجا ہے۔
میکائیل
ان کے ذمہ بارش اور نباتات (یعنی روزی) پہنچانے کا کام ہے۔
اسرافیل
قیامت کی گھڑی اور مخلوق کو دوبارہ زندہ کیے جانے کے وقت صور پھونکنے پر مامور ہیں۔
موت کا فرشتہ
موت کے وقت روح قبض کرنے پر مامور ہے۔
مالک
یہ فرشتہ داروغہ جہنم ہے۔
جنین پر مامور فرشتے
اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو شکم مادر مین جنین (بچے) پر مامور ہیں،چنانچہ جب انسان ماں کے رحم میں چار ماہ کی مدت پوری کر لیتا ہےتو االلہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کی موت،اس کے عمل اور اس کے بد بخت یا سعادت مند ہونے کو اھاطہ تحریر میں لاتا ہے۔
نبی آدم کے اعمال کی حفاظت پر مامور فرشتے
ہر شخص کے اعمال کی حفاظت اور انہیں لکھنے کے لیے دو فرشتے مقرر ہیں جن میں سے ایک انسان کے دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب رہتا ہے۔
مُردوں سے سوال کرنے پر مامور فرشتے
جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس سے اس کے رب ،اس کے دین اور اس کے نبی کی بابت سوال کرتے ہیں۔
فرشتوں پر ایمان لانے کے ثمرات
· اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی ۔اس کی قوت اور اس کی س؛طنت کا علم کیونکہ مخلوق کی عظمت درحقیقت خالق کی عظمت کی دلیل ہے۔
· نبی آدم پر عنایات و انعامات کرے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ دادا کرنا کہ اس نے ان فرشتوں کو نبی آدم کی حفاظت ،ان کے اعمال لکھنے اور دیگر مصلحتوں پر مامور فرمایا ہے۔
· فرشتوں سے محبت کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اپنے سپرد کردہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔
فرشتوں کے متعلق بعض شبہات اور ان کا ازالہ
گمراہ اور بدنیتوں کی ایک جماعت نے فرشتوں کے مجسم مخلوق ہونے کا انکار کیا ہے۔ان کا دعوی ہے کہ فرشتے دراصل مخلوقات مین موجود خیروبرکت کی (پوشیدہ)قوتوں کا نام ہے لیکن یہ دعوی کتاب اللہ،سنت رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانو کے اجماع کو صریھا جھٹلانے کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ جَاعِلِ ٱلْمَلَٰٓئِكَةِ رُسُلًا أُو۟لِىٓ أَجْنِحَةٍۢ مَّثْنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَ ۚ
ترجمہ: سب تعریف الله کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے فرشتوں کو رسول بنانے والا ہے جن کے دو دو تین تین چار چار پر ہیں (سورۃ فاطر،آیت 1)
اور ایک جگہ یوں ارشاد ہوا:
وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذْ يَتَوَفَّى ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ۙ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَٰرَهُمْ
ترجمہ: اور اگر تو دیکھے جس وقت فرشتے کافروں کی جان قبض کرتے ہیں ان کے مونہوں او رپیٹھوں پر مارتے ہیں (سورۃ الانفال،آیت 50)
اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَلَوْ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلظَّٰلِمُونَ فِى غَمَرَٰتِ ٱلْمَوْتِ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ بَاسِطُوٓا۟ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوٓا۟ أَنفُسَكُمُ ۖ
ترجمہ: اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لئے) ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں۔ (سورۃ الانعام،آیت 93)
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
حَتَّىٰٓ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا۟ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا۟ ٱلْحَقَّ ۖ وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْكَبِيرُ ﴿23﴾
ترجمہ: یہاں تک کہ جب ان کے دل سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے کہتے ہیں تمہارے رب نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں سچی بات فرمائی اوروہی عالیشان اور سب سے بڑا ہے (سورۃ سبا،آیت 23)
اور اہل جنت کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
جَنَّٰتُ عَدْنٍۢ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ ءَابَآئِهِمْ وَأَزْوَٰجِهِمْ وَذُرِّيَّٰتِهِمْ ۖ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍۢ ﴿23﴾سَلَٰمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى ٱلدَّارِ ﴿24﴾
ترجمہ: ہمیشہ رہنے کے باغ جن میں وہ خود بھی رہیں گے اور ان کے باپ دادا اوربیویوں اور اولاد میں سے بھی جو نیکو کار ہیں اور ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے کہیں گے تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کی وجہ سے پھر آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے (سورۃ الرعد،آیت 23،24)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو پسند فرماتا ہے تو جبریل کو پکارتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ بے شک اللہ فلاں بندے کو محبوب رکھتا ہے ،پس تم بھی اس سے محبت کرو،تو جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔پھر جبرائیل علیہ السلام آسمان والوں کو پکارتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپے فلاں بندے کو محبوب رکھتا ہے ،تم لوگ بھی اس سے محبت رکھو تو تمام آسمان والے بھی اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر اس کو زمین پر بھی شرف قبولیت سے نوازا جاتا ہے۔(صحیح بخاری ،بدالخلق،باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیھم،۔۔۔۔۔حدیث:3209)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"جمعہ کے دن مسجد کے تمام دروازوں پر فرشتے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسجد میں آنے والے نمازیوں (کے ناموں)کا ترتیب وار اندراج کرتے ہیں،پھر جب امام (خطبہ کے لیے منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو وہ بھی اپنے اپنے رجسٹر بند کر کے ( اللہ تعالیٰ کا ذکر) سننے کے لیے ( مسجد میں) آ جاتے ہیں۔"(صحیح بخاری ،بدالخلق،باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیھم،۔۔۔۔۔حدیث:3211)
کتاب و سنت پر مشتمل مذکورہ بالا تمام نصوص اس بات کی صراحت کرتی ہیں کہ فرشتے مجسم مخلوق ہیں،کوئی پوشیدہ اور معنوی قوتیں نہیں جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا کہنا ہے ،نیز چونکہ سب دلائل پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے،لہذا اس مسئلے پر مسلمانوں کا اجماع ثابت ہوا۔
٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment